بلتستان کے عظیم و عہد ساز محقق محمد حسن حسرت صاحب اپنے کتاب “بلتستان تہذیب و ثقافت” میں رگیالفو کیسر کے کے دور کے آثارکے حوالے سے کھرکوہ و ژھوغا کے درمیان ایک چٹان کا حوالے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس چٹان پر دو لکیریں ہیں جو ان رسیوں کےہیں جن سے بادشاہ کیسر نے اس پتھر کو باندھ کر لایا تھا موجودہ پتھر کے حوالے سے بھی اسی طرح کے دیومالائی باتیں ایک جنسے منسوب ہیں ہوسکتا ہے وہ پتھر جن کا ذکر حسرت صاحب فرما رہے ہیں یہ ہو کیونکہ جس پتھر کی وہ بات کررہے ہیں وہ غالباًکلوشے نامی پتھر ہے جس پر اس طرح کے واضح لکیریں موجود نہیں ہوسکتا ماضی میں یہ چیزیں قدیم ژھےتھنگ شہر کے حوالے سےدی گئی ہوں اور غورسے و سلینگ دونوں اس شہر کا حصہ ہوا کرتا تھا تو محلہ سیلنگ کے قریب ہونے کی وجہ کلوشے نامی پتھر کانام لیا ہو زیر نظر تصویر غورسے سکلمہ میں موجود چٹان کے ہیں جس کے حوالے سے بھی اسی طرح کی باتیں منسوب ہے غورسےمیں ہی ڈنڈا لا پہاڑ کے دوسری جانب کیسر کے گھوڑے کے نشان ” کیسری ہرتہ ریل” کے نام سے واضح طور پر ڈھلوان میں سفیدیکے ساتھ موجود ہے