تحریر ۔ احسان علی دانش
بلتستان کے اولین مورخ، قران مجید کے بلتی مترجم، نامور سکالر جناب یوسف حسین آبادی کے ہاتھوں فیتہ کاٹ کر اپنے وقت کے والی بلتستان علی شیر خان انچن کے مقبرے کے Monument کا افتتاح بلتستان کے پایہ تخت سکردو شہر میں ہوگیا۔ اس افتتاحی تقریب میں آرٹرلی کمانڈر برگیڈئیر آصف علی، سٹیشن کمانڈر 62 برگیڈ برگیڈیئر وقار سمیت اعلی فوجی و سول حکام ، علمائے کرام اور میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی ایک معقول تعداد موجود تھی۔ بلتستان کے اپنے وقت کے بادشاہ اور ان کے قریبی رشتہ داروں کی قبرین سکردو فوجی چھاونی سے متصل موجود تھیں ۔ان قبروں سے متصل چھاونی ڈوگرہ دور میں بنائی گئی مگر امتداد زمانہ قبروں کے نشانات کھو گئے تھے اور تقریبا گزشتہ سو سالوں سے یہ قبریں یہاں کے مقامی محققین اور ان کے اپنے ورثہ کے لئے ایک معمہ کی حیثیت اختیار کر گئی تھیں ۔
نامور محقق یوسف حسین آبادی کے مطابق علی شیر خان انچن کے جد امجد ابراہیم مقپون مصر سے اس طرف کو آنکلے تھے جب صلاح الدین ایوبی نے 1171 میں فاطمیین مصر کی حکومت کا خاتمہ کر ڈالا تھا ۔ اس وقت سکردو کا پایہ تخت موجودہ شگری بالا تھا جہاں ایک شکری نامی لڑکی کی حکومت تھی۔ اس ملکہ کے بارہ وزیر تھے اور ہر وزیر مصر تھا کہ اس لڑکی کی شادی اپنے خاندان سے ہو۔تاکہ سلطنت کی بادشاہت ہاتھ لگے۔ اسی دورانیے میں علی شیر خان انچن کے جد امجد ابراہیم مقپون فقیر کے بھیس میں شگری پہنچے اور ان کے وجیہ چہرہ اور معقول قد کاٹھ کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنے سارے وزرا کی خواہشات پر پانی پھیر دیا ۔ یوں علی شیر خان انچن کا جد امجد مقپون ابراہیم سلطنت بلتستان کے بادشاہ بن گئے ۔
کہا جاتا ہے کہ اس سلطنت کی سرحدات مشرق میں سرمیک اور مغرب میں گربیداس تک پھیلی ہوئی تھی۔ ابراہیم مقپون کی پندرویں پشت پر علی شیر خان انچن کا نمبر آتا ہے ۔ مقپون خاندان میں علی شیر خان جیسا بہادر بیٹا پیدا نہ ہوسکا ۔ علی شیر خان بچپن ہی سےغیر معمولی صلاحیت کا حامل ایک جنگجو انسان تھے بہادری کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی سلطنت کی وسعت میں اضافہ کرنے کی غرض سے جنگجو فوج تیار کر لی جس میں علاقے بھر سے توانا جوانوں کو بھرتی کیا۔ یوں اپنی مضبوط فوج کی مدد سے مشرق میں پورانگ اور مغرب میں چترال تک کے ایک وسیع علاقے کو اپنی سلطنت کا حصہ بنایا اور مزے سے حکومت کرنے لگے۔
علی شیر خان انچن نے فقط اپنی سلطنت کو وسیع نہیں کیا بلکہ اس سلطنت کی نظم ونسق ، رسم و رواج، معاشیات و اقتصادیات اور سرحدات کی حفاظت کے حوالے سے بھی بے پایاں اقدامات اٹھائے ۔ انہیں خبر تھی کہ دشمن کبھی اور کسی بھی طرف سے حملہ آور ہوسکتا ہے لہذا انہوں نے تھورگو سے کچورا تک تمام دروں کے درمیاں فصیلیں کھڑی کر دی تھیں تاکہ کسی بھی دشمن کا داخلہ ممکن نہ ہو۔ جن کے اثار آج بھی موجود ہیں ۔ انہوں نے اس دور میں ایمرجنسی اطلاع کے لئے سیگنل کا اعلی نظام متعارف کرایا تھا جس میں رات کے وقت روشنی اور دن کو دھواں چھوڑا جاتا تاکہ لمحوں میں سلطنت کے سر تا سر ہونے والے انہونے واقعے کا علم ہو۔ اس کام کے لئے تمام چوٹیوں پر چوکیاں بناءین. جہاں سے ایک دوسرے کو دکھائی دے ۔ان ساری چوکیاں کے نشانات بھی موجود ہیں ۔شہر کے لئے بجانے کا ایسا آلہ موجود تھا جسے کسنا کہتے جس کے بارہ سر ہوتے اور ہر سر ایک نئے پیغام کی علامت ہوتی ۔
انہوں نے اپنے محلات کے ارد گرد کئی خوبصورت باغات لگائے جن میں نکاسی آب سمیت خوبصورت فوارے مختلف پھولوں کی روشیں اور اعلی اقسام کے پھلوں کے پودے بھی لگائے ۔
علی شیر خان انچن نے اپنے اجداد کے بنائے گئے عظیم قلعہ کھرپوچھے کی وسعت و تزئین و آرایش ایسی کی کہ بعد والے لوگوں نے اس قلعے کو آپ ہی کے نام سے منسوب کیا حالانکہ اس قلعے کی تعمیر آپ کی پیدائش سے قبل ہوچکی تھی۔
علی شیر خان انچن کی رسائی ہندوستاں میں مغلیہ دربار تک ہوئی اور مغل شہزادی گل خاتون علی شیر خان کی جوانمردی پر دل دے بیٹھی ۔ یوں وہ مغلیہ خاندان کے داماد بن گئے ۔بعد میں اسی گل خاتون نے کھرپوچھے سے متصل اپنے باغ کے لئے ایک چینل تعمیر کرایا جو آج بھی فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے جس میں تراشے ہوئے جتنے بڑے بڑے بولڈرز سے چنائی کی گئی ہے وہ خود ایک عجوبہ روزگار ہے۔ ان کے انہی کارناموں کی بدولت ہندستان اور ایران کی تاریخ نے انہیں فخر سے یاد کیا ۔
یوسف حسین آبادی نے کہا کہ انہیں اس بات کی فکر لاحق تھی آخر اتنے بڑے بادشاہ کو کہاں دفنایا ہوگا۔ ان کی بلکہ پوری قوم کی اس مشکل کو اٹلی کے سفرنامہ نگار فلپو ڈی فیلپی نے اسان کردیا جس نے آج سے کوئی 110 سال قبل اپنی ایک کتاب میں سکردو کے مقپون خاندان کا تفصیلی تزکرہ لکھا تھا جس میں واشگاف لفظوں میں بیان کیا گیا کہ علی شیر خان انچن سمیت اس کے گھر کے دیگر افراد کی قبریں ایک ساتھ اسی مقام پر ہیں جہاں آج مقبرہ بنایا گیا۔ اٹلی کے سفر نامہ نگار نے کتاب میں مقبرہ کا فوٹو بنا کر پیش کیا تھا۔
یوسف حسین آبادی نے فورس کمانڈر گلگت بلتستان جنرل جواد قاضی صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا جس کے حکم سے اج ایک تاریخی کام انجام پزیر ہوا۔
مقبرے کی افتتاحی تقریب سے خطِاب کرتے ہوئے کمانڈر ارٹرلی برگیڈئیر آصف علی نے سب کو مبارکباد دی کہ آج جی بی کے نامور سکالر جناب یوسف حسین آبادی کی جستجو سے ایک تاریخ رقم ہوئی جس میں پاک فوج کی محنت بھی شامل رہی۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں بلتستان کے سکالرز کی ایک ٹیم جس میں جناب یوسف حسین آبادی، جناب محمد حسن حسرت، جناب قاسم نسیم اور جناب احسان علی دانش سے وقتاً فوقتاً مشورے ہوتے رہے اور آج ہم اپنی جدو جہد میں سرخ رو ہوئے ۔
یہ مقبرہ سکردو فوجی چھاونی کی حدود میں ہے تاہم برگیڈئیر آصف نے عندیہ دیا ہے کہ بہت جلد کوئی ایسا راستہ نکالا جائے گا کہ عام عوام باروں بار سے آ جا سکیں گے اور فاتحہ خوانی کی جا سکے گی۔